Health

header ads

برصغیرکا مسلم تعلیمی نظام، انگریزحکومت سےپہلے,Education system in the subcontinent

 

برصغیرکا مسلم تعلیمی نظام انگریزحکومت سےپہلے:


انگریزمؤرخین اور انگریزحکومت کےذمہ داران اس بات کے معترف ہیں کہ مسلمانوں کے برصغیرمیں تعلیم عام اور مفت تھی، معیارتعلیم بلند تھا اور تعلیمی سہولتیں وافر تھیں۔


انگریزمؤرخین کی رپورٹز:

تھامس منرو:oThomas Munr

تھامس منرو کی 25 جون 1822ء کی پہلی رپورٹ جس میں اعتراف ہےکہ:

 "مدارس کےصوبےمیں ہرپانچ سو افراد کی آبادی میں ایک سکول موجود تھا اور آبادی کے ایک تہائی لوگوں کو سکولز کی سہولت دستیاب تھی"۔

آر- وی - پرولیکر:R.v. Prolekar

آر- وی - پرولیکر بمبئی میں تعلیم کی وسعت کےبارے لکھتا ہےکہ:

 " ہندوستان میں پڑھے لکھے لوگوں کا تناسب اتنا ہی ہےکہ جتنا یورپی ممالک میں ہے"۔

عیسائی مبلغ ولیم آدم:William Adam

صوبہ بنگال اور صوبہ بہارکی تعلیمی حالت کے متعلق سب سے زیادہ مفصل رپورٹ عیسائی مبلغ ولیم آدم نےتیارکی۔ 

"رپورٹ کے مطابق انگریزحکومت کے آغاز کے وقت صوبہ بنگال اور بِہار میں پانچ سے دس سال کے بچوں کے لیے ایک لاکھ سکولز موجود تھے جن میں پڑھنے لکھنے اور حساب کی ابتدائی تعلیم دیجاتی تھی"۔

 

مسٹرآرنلڈ:Mr. Arnold

مسٹرآرنلڈ پنجاب کے متعلق اپنی رپورٹ میں لکھتا ہےکہ:

" یہاں تعلیم عام ہے۔ مسلمان ، سکھ ، اور ہندوسبھی یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

البتہ تمام اساتذہ مسلمان ہیں۔ بیشتراساتذہ بغیرکسی معاوضہ کے تعلیمی فرائض سرانجام دیتے ہیں۔ یہ مدارس اوقاف کی آمدنی سےچل رہے ہیں۔ اور لڑکیوں کے لیےجداگانہ سکول ہیں"۔

ولیم ہنٹر:William Hunter

ولیم ہنٹر نے ہندوستانی مسلمانوں کےبارے میں لکھا ہے کہ:

 " ملک پر ہمارے قبضہ سے پہلے مسلمان نہ صرف سیاسی اعتبار سے بلکہ علمی اعتبار سےہندوستان میں بڑی قوت رکھتے تھے۔ ان کا نظام تعلیم اعلی درجہ کی ذہنی تربیت دیتا تھا اور یہ ہندوستان کے دیگرتعلیمی نظاموں سے قدرے بہتر تھا"۔


ان مختلف رپورٹوں سےاندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انگریزوں نے جس وقت برصغیر پاک و ہند پر قبضہ کیا اس وقت مسلم نظام تعلیم اپنے عروج پرتھا۔ کوئی گاؤں ایسا نہیں تھا کہ جہاں کوئی مدرسہ موجود نہ ہو۔

Post a Comment

0 Comments